پوسٹر سے پوسٹر تک

 یہ قصہ ہے اکیسویں صدی کا جہاں کچھہ خواتین پوسٹر اٹھائے اپنے حقوق منوانے نکلتی ہیں "میرا جسم میری مرضی" اور اس قسم کے کئی پوسٹر اُٹھائے یہ اس حد تک آگے بڑھہ جاتی ہیں کہ اپنے فرائض بھی بھول جاتی ہیں،بعض مورخین نے اس کہانی پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ حقوق مانگتے ہوئے یہ خواتین اس تیزی سے آگے بڑھی ہیں کہ ان کا دماغ کہی پیچھے رہ گیا ہے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس دور کے سب سے بڑے میڈیا یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پوسٹر غیر معمولی
طور مشہور ہوگئے پوسٹر سے لبریز یہ تصاویر کئی دن تک ہر وال،پیج،اور گروپ میں زیر بحث رہی کچھہ ایام بعد اس کہانی کے سارے کردار خاموش ہوگئے یہ باب بند ہی ہونے کو تھا کہ ایک اور قسم کے پوسٹر جس میں "اپنے پنکچر خود بناوُ جیسی تصاویر منظر عام پر آتی ہیں اب کی بار مرکزی کردار مردوں کا ہوتا ہے  جس میں خواتین کو شانہ بشانہ کھڑے ہونے طنزیہ دعوت دی جاتی ہے۔ یہ کہانی اس لحاظ سے بھی عجیب و غریب ہے کہ جہاں حقوق پوسٹرز اور پلے کارڈ کے ذریعے مانگے جا رہے ہوں وہاں حقوق صرف پوسٹر تک ہی مل سکتے ہیں تاہم یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کہنا قبل از وقت ہوگا۔

 عذرا ناز
کراچی 

تبصرے