آیاصوفیہ کے بعد ترکی کے ایک اور عجائب گھر کو مسجد میں تبدیل کردینے پر تُرک صدر رجب طیب اردوغان کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور انہیں مسلمانوں کا مودی بھی کہا جارہا ہے. لیکن اردوغان کو اُمت مسلمہ کا مودی کہنا سراسر زیادتی ہے. طیب اردوغان نے مسٹر مودی کی طرح استنبول میں غیر مسلموں کا قتل عام نہیں کیا جیسا کہ مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا کیا تھا. اردوغان حکومت نے مودی سرکار کی طرح اپنے شہروں یا علاقوں کے نام تبدیل نہیں کئے جیسا کہ مودی اینڈ کمپنی نے بھارت کے بیشتر علاقوں کا جن کے نام اسلامی تھے انہیں تبدیل کیا تھا.
کچھ سیکولر ٹوئیٹر مجاہدین کو اعتراض ہے کہ اردوغان ایک کے بعد ایک چرچ کو مسجد میں تبدیل کرتے جارہے ہیں تو اُنہیں یہ بات سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ اردوغان نے آیاصوفیہ "میوزیم" کو مسجد کی حیثیت میں بحال کیا ہے نا کہ آیاصوفیہ "چرچ" کو۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اردگان نے اقتدار کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے عیسائیوں کو اُنکی عبادت گاہ سے نکال کر وہاں مسلمانوں کے سجدوں کا بندوبست کردیا ہے بلکہ اُن عمارتوں میں تو گذشتہ کئی دہائیوں سے کسی عیسائی نے کوئی عبادت نہیں کی۔
آیاصوفیہ کو سلطان محمد فاتح نے 1453 میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد مسجد میں تبدیل کیا تھا بعض تاریخی محقق تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سلطان محمد فاتح نے آیاصوفیہ کو ایک معاہدہ کے تحت خرید لیا تھا اور چونکہ اُس وقت کیتھولکس اور ارتھوڈاکس کے درمیان فرقہ واریت کی جنگ جاری تھی اور حالات مسلمانوں کے حق میں تھے لہٰذا سلطان نے بڑی آسانی سے بغیر کسی بغاوت کا سامنے کئے آیاصوفیہ کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا. لیکن پھر سیکیولر ترکی حکومت نے 1935 میں اس کی حیثیت کو مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کردیا. اب سوال یہ ہے کہ امن و امان کے علمبردار مغرب نے اُس وقت اس عمل کی مزمت کیوں نہیں کی جسطرح اب کی جارہی ہے؟ مذہبی رواداری کا پرچار کرنے والے مغرب نے اس وقت کیوں کر مسلمانوں کی عبادت گاہ کو عجائب گھر میں تبدیل کیے جانے پراحتجاج نہیں کیا؟ تو بات فقط اتنی ہے کہ مغرب مسلمانوں کی ہمیشہ مخالفت میں ہی آواز بلند کرے گا نہ کہ ان کی حمایت میں ورنہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمان یوں نصف صدی سے رُل نہ رہے ہوتے. بہرحال ابھی ایک دو روز قبل طیب اردوغان نے ایک اور تاریخی عمارت جو سیکیولر ترکی سے پہلے ایک مسجد تھی اور فلحال جس کی حیثیت میوزیم کی تھی اُسے دوبارہ کم و بیش ستّر سال بعد مسجد کی حیثیت میں بحال کردیا ہے. اپنی تعمیر کے وقت یہ یقیناً چرچ ہوگی لیکن قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اس شہر کا نام اسلام بول(استنبول) رکھا گیا تو یہاں پر سلطان محمد فاتح نے مسجدوں کی تعمیر شروع کر دی اور بعض تاریخی عمارتوں کو بھی مسجد میں تبدیل کیا تھا یہ عمارت بھی اُنہی میں سے ایک ہے.
تاریخ کو دیکھیں تو گرجا گھروں کا مسجد میں, مسجدوں کا مندروں میں یوں تبدیل ہونا کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے، بات صرف طاقت اور اختیار کی ہے۔ اگر آپ ایک نظر اُندلس(اسپین) کی مسجد قرطبہ کی طرف ڈالیں کہ جہاں جیّد علماء و مشائخ اور اولیاء حصول علم کے لئے آتے اور پھر وہاں سے فیض یاب ہو کر لوٹتے، اسے بھی تیرھویں صدی میں چرچ کی حیثیت دے دی گئی تھی. اب آج اگر مغرب امن وامان اور مذہبی رواداری کی بات کرتا ہے تو وہ کیوں کر مسلمانوں کو مسجد قرطبہ میں نماز کی اجازت نہیں دیتا؟ کیونکر ساری باتیں اسی وقت یاد آتی ہیں جب کوئی نڈر مسلم رہنما ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں کے لہجے میں بات کرتا ہے؟ شاید اسکی وضاحت ضروری نہیں ہے قارئین بخوبی جانتے ہیں.
جہاں تک بات ترک صدر اردوغان کی ہے تو انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ جب میرے ملک میں اتنے نمازی پیدا ہو جائیں گے کہ مسجدوں میں جگہ کم پڑ جائے گی تب ان کے لیے مسجدوں کا انتظام کرنا میری ذمہ داری ہوگی اور میں اس کے لئے تاریخی عمارتوں اور عجائب گھروں کے دروازے کھول دوں گا۔ اب جو لوگ ابھی تک ترکی کو ایک سیکولر ریاست جانتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو مغرب کی روایت کا پیروکار سمجھتے ہیں تو وہ ذرا ایاصوفیہ میں کسی ایک باجماعت نماز کی ادائیگی کو براہراست دیکھ لیں غلط فہمی دور ہوجائے گی۔ باقی سوالوں کا جواب 2023 تک مل جائے گا۔
تحریر: ملک حسّان
bhi aap templates kiun nhi lgaa lete
جواب دیںحذف کریںhamara blog naya hai, bht kuch seekh rhy hain abhi.
حذف کریںBahot hi zabardast tehreer hai
جواب دیںحذف کریں