
23 مارچ 1940 منٹو پارک میں ایک کرارداد جس میں دو قومی نظریہ کا سانچہ پیش کیا گیا اس میں کہا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو بلکل مختلف قومیں ہیں جن میں ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔ اس اہم دن کو ہم پاکستانی چھٹیاں دے کر یا گھروں میں بیٹھ کر اس دن کی خصوصی ٹرانسمیشن دیکھ کر اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں مزاروں پر حاضری دے کر محب وطن ہونے کا بھی سرٹیفیکٹ بھی لے لیا جاتا ہے اس کے علاوہ برانڈڈ کپڑوں اور دوسری چیزوں پر بھی کافی چھوٹ دے کر اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔۔۔افسوس کہ ہم 23 مارچ کو جو دو قومی نظریہ کا سبق ہمیں پڑھایا گیا اسے بھول بیٹھے ہیں آج ہم اس نظریہ سے منہ موڑ کر امن کی آشا بھارت کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں آج مشترکہ تہذیب و ثقافت کے نام پر بھارت ہمیں الو بنا رہا ہے اور ہم آنکھ بند کر کے بن رہے ہیں۔اس نے ایک جانب ہمیں فلموں،گانوں،لافٹر اور کھانوں کے مقابلوں میں الجھا کراپنا کام شروع کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دریاوں میں ڈیم بنائے جارہے ہیں اور یہ ڈیم پاکستان کے لئے تباہی کا باعث ہے کیونکہ اب جب بھارت چاہے پاکستان کا پانی روک دے گا اور جب چاہے دریاوں میں پانی چھوڑ کر سیلاب کی کیفیت پیدا کر دے گا۔ دوسری جانب تجارت کے سبز باغ دکھا کر مسئلہ کشمیر کو بھاعت نے پس پشت ڈال دیا ہے ہر کوئی پیسے کی دوڑ میں بھاگ رہا ہےاور اپنا کردار بھول بیٹھا ہے۔۔۔ کیا یہی جدوجہد آزادی کا مقصد تھا؟؟کیا ہم نے فراموش کر دیا کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کن کوگوں کے بارے میں کہا گیا تھا؟؟ کیا یہی دو قومی نظریہ تھا؟؟آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قرارداد پاکستان اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد سامنے رکھ کر اس کی روشنی میں تعمیر پاکستان کا کام کریں اور یہ کام ِاسے یا اُسے نہیں بلکہ مجھے اور آپکو کرنا ہے ہم سب کو مل کر اپنے وطن کو سنوارنا ہے۔ اچھائی کا آغاز اپنے آپ سے شروع کریں اور خیر کا پہلا پھول آپ کھلائیں ۔۔ آخر میں بس صرف اتنا کہنا ہے کہ
"پاکستان زندہ باد"
عذرا خورشید
جامعہ کراچی
"پاکستان زندہ باد"
جواب دیںحذف کریں