قائداعظم ہاؤس میوزیم

قائداعظم ہاؤس میوزیم جو'فلیگ اسٹاف ہاوس'  کے نام سے بھی مشہور ہے، ایک میوزیم ہے جو پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی ذاتی زندگی کے لئے وقف ہے. ۔یہ عمارت قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ عمارت انگریزی طرزِ تعمیر کی خوبصورت جھلک پیش کرتی ہے اس کا کل رقبہ دس ہزار دو سو اکتالیس مربع گز ہے۔ تاہم، رہائشی حصہ زیادہ لمبا چوڑا نہیں۔ انتہائی وسیع لان، کشادہ، پرسکون، سبزہ زاروں میں گھری۔۔ اور سب سے بڑھ کر بانی پاکستانی محمد علی جناح اور ان کی بہن فاطمہ جناح کی یادوں کو تازہ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ گھر قائداعظم نے ایک لاکھ پندرہزار روپے خریدا تھا ۔اس کا سیل ایگریمنٹ 14اگست 1943ء کو سہراب کائوس جی کڑاک سے طے پایا تھاجو کراچی کے مئیر بھی رہے ۔ یہ عمارت کب قائم ہوئی، بتانا ذرا مشکل ہے بہرحال تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ اس کے پہلے مالک مسٹر رام چند ہنس راج کچھی لہانہ تھے۔ 1922ء تک یہ گھر ان کی ملکیت میں رہا۔ 1940ء میں اسے برٹش انڈین آرمی نے خرید لیا اور پھر یکے بعد دیگرے یہ کئی اعلیٰ فوجی افسروں کی قیام گاہ رہا۔ اسی مناسبت سے اسے ’فلیگ اسٹاف ہاؤس‘ کہا جاتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد ستمبر 1947ء میں قائد اعظم محمد علی اپنی دہلی کی رہائش گاہ اورنگزیب روڈ سے فلیگ سٹاف ہاؤس منتقل ہوگئے جس کے بعد اسکا نام قائد اعظم ہاوس رکھ دیا گیا۔  قائد اعظم کی دہلی کی رہائش گاہ سے گھر کا تمام سامان  اور فرنیچر قائد اعظم ہاوس لایا گیا۔ اس عمارت میں آج بھی قائدِ اعظم اور فاطمہ جناح کے زیر استعمال رہنے والی اشیاء، فرنیچر، برتن، کتابیں اور دیگر سامان موجود ہے
قائد اعظم ہاوس میوزیم میں تین کمرے نیچے اور تین کمرے پہلی منزل پر واقع ہیں۔ قائد اعظم کا استعمال شدہ ڈرائینگ روم آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اس وقت کے صوفہ سیٹ اور فرنیچر آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں ساتھ ہی اسٹیڈی روم ہیں جہاں رکھے ٹیلی فون سے قائد اعظم کی بڑی یادیں وابسطہ رہیں ۔ یہاں قائد اعظم قانون اور مختلف موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ اُس کے برابر میں ڈائینگ روم ہے جہاں لگے لمبے ٹیبل اور کرسیاں میٹنگ روم کے لئے بھی استعمال ہوتی تھِیں۔ 
پہلی منزل پہ چڑھتے ہی سامنے ایک بڑے سے فریم میں قائد اعظم، انکی بیٹی دینا جناح اور فاطمہ جناح کی تصویر آویزاں ہے۔ قائد اعظم کی خواب گاہ میں آرام دہ بیڈ ہے جس کی میز پہ قائد اعظم  کی اہلیہ رتی جناح کی نایاب تصویر رکھی ہوئی ہے۔ کمرے میں موجود دلکش فرنیچر قائد کے خوبصورت انتخاب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قائد اعظم کے کمرے میں ایک قرآن مجید بھی موجود ہے جو مسلم لیگ رہنماوں نے 1945 میں قائد اعظم  کو تحفے میں دیا تھا۔ 
قائد اعظم کی وفات کے بعد 1964 تک یہ گھر فاطمہ جناح کے زیر استعمال رہا۔ اس عمارت کی شاندار اہمیت اور محل وقوع کی وجہ سے بہت سی پارٹیاں اسے خریدنا چاہتی تھیں ،اس لیے نہیں کہ اس عمارت کو بچایا جائے بلکہ اس لیے کہ اسے توڑ پھوڑ کر از سر نو کوئی نئی عمارت ایستادہ کی جائے لیکن فضلِ خدا سے کوئی بھی اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس عمارت کی نیلامی کا اشتہار اکتوبر 1980ء میں شائع ہوا تھا، جس کے بعد قائد اعظم کے سیکرٹری رضوان احمد نے اخبارات کے ذریعے اس طرف توجہ دلائی کہ اسے نیلا م نہ کیا جائے اور قومی یادگار قرار دیا جائے جس کے بعد 1985ء میں محکمہ آثار قدیمہ کے کہنے پر حکومت نے اس بنگلے کو خرید کر اسے قومی یادگار قرار دے دیا۔ اب اس میوزیم میں روزانہ ملکی اور بلخصوص غیر ملکلی زائرین آتے ہیں اور یہاں پر موجود نوادرات کو دیکھ کہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مزید نئی نسل کو اپنے قائد کی زندگی کے رہن سہن سے آگاہی فراہم کرنے میں قائداعظم ہاؤس میوزیم اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک ماسوائے بدھ کے یہ میوزیم کھلا رہتا ہے۔ میوزیم کے باغ کے صحن میں فوارہ بھی اس کے حسن کو بڑھاتا دکھائی دیتا ہے۔یہ میوزیم واحد میوزیم ہے، جہاں آنے والے مہمانوں کو سٹاف خود بہ نفس نفیس میوزیم دکھاتا اور تاریخ سے آگاہ کرتا ہے۔

ملک حسّان
جامعہ کراچی

تبصرے