اسٹیٹ بینک میوزیم کی عمارت سن 1920 میں برطانوی حکومت نے بنوائی تھی، یہ ایک یونانی رومن فنِ تعمیر کی شاہکار عمارت ہے جو کہ سُرخ رنگ کے جودھ پور پتھر سے تیار کروائی گئی ۔ اس منفرد عمارت کی خاصیت اس کی شیشے سے بنی ہوئی مچھلی کے ڈیزائین والی چھت ہے جس کا فریم پیتل کا ہے۔ یہ میوزیم کبھی امپرئیل بینک آف انڈیا کی بلڈنگ تھا مگر اب یہ برصغیر کے آثار قدیمہ کے خزانے کا گھر ہے جہاں 2500ء قبلِ مسیح سے 800ء عیسوی تک کے سکے موجود ہیں، سکندر اعظم کے عہد میں جاری کردہ سکے، دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی کرنسی کے ساتھ ساتھ یہاں صادقین کی نقاشی کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی یکھا جاسکتا ہے۔
زمانہ قدیم کی باقیات کے دورے کا آغاز سکوں کی شاندار کلیکشن سے ہوتا ہے جو یہاں اس زمانے کے بھی ہیں جب چاندی کے ناہموار شکل کے سکے چلتے تھے، ان کا وزن یکساں ہوتا تھا اور ان پر کندہ کاری بہت سادہ مگر علامتی تصورات یعنی جانوروں سے لے کر فطرت کے مختلف عناصر پر مشتمل ہوتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں کرنسی کی پہلی شکل کی دریافت پانچویں صدی قبل مسیح میں ہوئی تھی۔اس کے بعد تین سو قبل مسیح میں سکندر اعظم نے برصغیر پر دھاوا بولا تھا اور اس دور کے سکوں کی شکل میں تبدیلی واضح ہے، ان کے ڈیزائن میں یونانی دیوتاﺅں اور وجہ شہرت کی کہانیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ان سکوں میں یونانی دیومالا کی شخصیات کو بھی پیش کیا گیا ہے جیسے ہرکولیس کا سر سکے کے سامنے جبکہ یونانی دیوتا زیوس پیچھے کی جانب کندہ ہے اور بیشتر سکے ان دونوں کے نقوش پر ہی مشتمل ہیں۔ معمول کی کرنسیوں کے ساتھ ساتھ یہاں سکندر کی جانب سے بادشاہ پورس کے خلاف ' جہلم کی عظیم جنگ' میں کامیابی کے بعد جاری ہونے والے نایاب یادگاری سکے بھی میوزیم کا حصہ ہیں جو کہ بادشاہ کی سب سے بڑی جنگ کی یادگار ہیں۔
یونانی تہذیب اور سکندر کے بعد برصغیر میں آنے والے حکمرانوں کے آثار یا نشانیوں کو اسٹیٹ بینک میوزیم میں سکوں کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔
مغلوں کی آمد کے بعد یہاں کی تہذیب میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی، ایک مسلم عہد کا آغاز ہوا اور اس تبدیلی کا اظہار ڈیزائن اور تعمیرات میں بھی نظر آتا ہے۔اس عہد کے سکوں پر دفاعی آلات نظر نہیں آتے، نہ ہی گھوڑے یا بادشاہوں کے چہرے دیکھے جاسکتے ہیں، بلکہ ان کی جگہ فارسی خطاطی نے غلبہ پالیا۔تمام مغل شہنشاﺅں میں اکبر کے عہد کے سکے اپنے ڈیزائن کی بدولت سب سے الگ نظر آتے ہیں۔اکبر کے سکے گول اور چوکور دونوں طرح کے ہیں جس کے اوپر عام طور پر کلمہ تحریر ہے اور پشت کی جانب " جلال الدین محمد اکبر" لکھا نظر آتا ہے۔ اکبر نے اپنے مذہب دین الہیٰ متعارف کرانے کے بعد خصوصی سکے بھی متعارف کرائے تھے ان دین الہیٰ سکوں پر " اللہ اکبر" پڑھا جاسکتا ہے۔ ایک اور خاص سکہ نورجہاں کے نام سے سجا ہوا ہے جو کہ واحد مغل ملکہ ہے جس کا نام چاندی کے سکوں پر کندہ گیا۔ مغل عہد کے اختتام پر برصغیر میں سکوں کا دور پھر بدل گیا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے برطانوی حکمرانوں کے پورٹریٹ استعمال کیے جاتے تھے، سکھوں کے سکوں میں گرو نانک چھائے ہوئے تھے جبکہ ٹیپو سلطان کی ریاست میں ہاتھیوں کو سکوں پر کندہ کیا گیا تھا۔
عجائب گھر میں موجود ایک گیلری پاکستان میں مختلف ادووار میں جاری کیے گئے کرنسی نوٹوں کے لیے مخصوص ہے جہاں دنیا میں کرنسی نوٹوں کے ارتقاء کی تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہے۔ اس گیلری میں برطانوی ہند اور دیگر خطوں کے کرنسی نوٹ بھی موجود ہیں۔
ایک گیلری اسٹیٹ بینک کے سابق گورنروں کے نام سے منسوب ہے جسے ملک کے مرکزی بینک کے 1948 سے لے کر 2010ء تک رہنے والے 16 سابق گورنرز کی تصاویر، ان کے شخصی خاکوں اور ان کے دورکے اہم مواقع کی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ اس گیلری میں اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسین کے زیرِاستعمال رہنے والا دفتری فرنیچر اور ٹیلی فون بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔عجائب گھر کی ایک اور گیلری 'اسٹیٹ بینک' کی 63 سالہ تاریخ بیان کرتی ہے جہاں ملک کے مرکزی بینک کے قیام، اس کے ارتقاء اور اس کی تاریخ کے اہم مواقع سے متعلق تصاویر اور دستاویزات نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں اسٹیٹ بینک کا پہلا کھاتہ رجسٹر اور بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا دستخط شدہ پہلا چیک اور اکائونٹ اوپننگ فارم بھی موجود ہے۔ عجائب گھر میں کئی دیگر اہم اور دلچسپ چیزیں بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جن میں 1988ء میں نصب کی جانے والی پاکستان کی پہلی اے ٹی ایم مشین، سادہ کاغذ کو کرنسی نوٹ میں تبدیل کرنے والا اسٹیٹ بینک کا پہلا چھاپہ خانہ، سکے ڈھالنے کی قدیم مشین اور کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے لیے استعمال کی جانے والی نِکل کی پلیٹیں شامل ہیں۔
میوزیم کی ایک گیلری کو ملک کے معروف مصور اور خطاط صادقین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جہاں ان کے وہ چار فن پارے موجود ہیں جنہیں صادقین نے 60ء کی دہائی میں اسٹیٹ بینک کی فرمائش پر بینک کی عمارت میں ہی تخلیق کیا تھا۔ ان فن پاروں میں صادقین کا شہرہ آفاق 'وقت کا خزانہ' نامی 60فٹ طویل اور 8 فٹ بلند وہ میورل بھی شامل ہے جس پر تاریخِ عالم کے عظیم ترین فلسفیوں اور سائنسدانوں کی شبیہیں بنائی گئی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ریاضی دانوں، سائنسدانوں اور فلسفیوں میں صادقین نے اپنی پورٹریٹ بھی شامل کررکھی ہے۔گیلری کا ایک اور کمرہ نوجوان ہم عصر فنکاروں کے نام کیا گیا ہے جہاں ان کا کام بغیر کسی معاوضے کے نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے۔
انہیں خصوصیات کی بناء پراسٹیٹ بینک میوزیم کو پاکستان کا پہلا مالیاتی میوزیم ہونے کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل کونسل آف میوزیمز کا پہلا پاکستانی میمبر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
ملک میں ثقافت کے تباہ ہوتے منظرنامے میں یہ میوزیم ملکی نوادرات کے تحفظ کے لیے کھڑا ہے، برصغیر کے خزانے کا گہرائی میں جاکر جائزہ لینے کے خواہشمند افراد کے لیے یہاں جانا کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
ملک حسّان
جامعہ کراچی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں