ملالہ نے آخر کیا ہی کیا ہے جو اتنی مشہور ہے ؟

2007 میں جب پاکستان آرمی نے سوات میں موجود تحریک طالبان کے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تب ایک صحافی سوات آپریشن میں متاثرہ خاندانوں کا انٹرویو کرنے گیا۔ انڑویو کے دوران صحافی کی نظر ایک چھوٹی لڑکی پہ پڑی جو چپ چاپ کھڑی ساری باتیں سن رہی تھی صحافی نے اُس لڑکی کو مخاطب کیا ،اُس لڑکی نے جس بہادری اور اعتماد سے انٹریو دیا، وہ اپنے آپ میں ایک مثال تھا،وہ انٹریو اتنا جاندار تھا کہ اگلے دن اس صحافی نے اس بچی کو اپنے پروگرام میں بلا لیا، اور سوات کی دلیر لڑکی ملالہ یوسفزئی شہ سرخیوں میں آگئی۔ انڑویو کے کچھ عرصے بعد جب ملالہ اسکول جارہی تھی تو طالبان کی جانب سےاس پر حملہ ہوا اور گولی اسکے منہ کو چھو کہ گزر گئی، ایک ہل چل مچ گئی یہاں تک کہ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اس خبر کو کوریج دی، ملالہ کی حالت نازک تھی اور اس کے بہتر علاج کے لئے اُسے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔
اپنے طور پر تو تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں نے 12 اکتوبر 2012 کو 15 سالہ ملالہ یوسفزئی کے سر پر گولی مار کر اُسکی زندگی ختم کردی تھی لیکن بے شک جان و مال کا محافظ اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ آج 2012 والی تحریک طالبان کا شیرازہ تو بکھرچکا ہے لیکن ملالہ یوسفزئی نہ صرف بخیر حیات ہیں بلکہ آج کی دنیا میں جن خواتین کو انتہائی عزت و تکریم سے پوری دنیا میں مانا اور جانا جاتا ہے ان میں پاکستان کی اس بیٹی کا نام سر فہرست ہے
طبیعت کی درستگی سے لے کر اب تک ملالہ نے کیا کارنامے سر انجام اب زرا ان پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ "دی ملالہ فنڈ" ایک ایسی آرگنائزیشن ہے جو خواتین کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کے لئے حد درجہ کوشش کر رہی ہے جس کی قیادت خود ملالہ یوسفزئی کر رہی ہیں۔ تقریباَ گیارہ ملکوں میں اس آرگنائزیشن کی وجہ سے اب وہ لڑکیاں اسکول جا سکتی ہیں جو پہلے نہیں جا سکتی تھیں۔ تعلیم کے سلسلے میں ملالہ نے ان ملکوں کا بھی ساتھ دیا جہاں شام کے پناہ گزین موجود تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پہ اسٹیٹس اپلوڈ کر رہے تھے تب ملالہ لبنان میں ان شامی پناہ گزینوں کے لئے اسکول کھول رہی تھی اور اس وقت اس کی عمرصرف اٹھارہ سال تھِی۔ 2014 سے اب تک چالیس ہزار سے زائد بچیاں اچھی تعلیم تک رسائی حاصل کر چکی ہیں۔ مزید ملالہ فاؤنڈیشن نے آزاد کشمیر میں بچوں کی تعلیم کےلئے فنڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 'یونیسکو' کی ویب سائٹ کے مطابق ملالہ کی وجہ سے ایک لاکھ سولہ ہزار آٹھ سو پچیس لوگوں کی زندگیاں مثبت انداز میں تبدیل ہوگئیں ہیں اور
لوگوں کی اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اب چاہے آپ اُسے پسند کریں یا نہ کریں، اسے مستقبل کا عالمی لیڈر کہیں یا اوور ریٹٹد، اس بات سے تو آپ ہر گز انکار نہیں کرسکتے کہ اُس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیوں کی زندگیاں پڑھائی اور پڑھائی سے کامیابی کی طرف گامزن ہوگئی ہیں


ملک حسان
جامعہ کراچی

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں